میں نے گورکن کو جیب سے 8 ہزار نکال کر دیئے اور بولا کہ دیکھو جیسے تم کو سمجھایا ہے ویسے ہی قبر کھود دینا، یہ میرا نمبر ہے۔ جنازے سے 5 گھنٹے پہلے تم کو کال کروں گا تم مجھے مس کال دے دو اس نے چپ چاپ پیسے پکڑے میرا نمبر ملایا مس کال دی اور چل دیا۔
نہ اس کی آنکھوں میں کوئی دکھ تھا نا بی درد کیونکہ اس کی روزی روٹی قبر کھودنے سے جڑی ہوئی تھی۔ میرے قدم میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے اچانک میرا پاؤں لڑکھڑایا اور میں ایک قبر کے سرہانے گر گیا۔ ہمت کرکے اٹھا تو قبر کے کتبہ پہ بڑا بڑا نام رانا امیر علی درج تھا جس کے سربانے سے بارش کا پانی اندر جاکر تباہی مچا چکا تھا قبر
مکمل بیٹھ چکی تھی۔ سات مربع ،زمین، کروڑوں روپے کی فیکٹریاں اور چار بڑے بنگلوں کا مالک مجھے چیخ چیخ کے کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔ کہ ھادی حیات سنبھل جاؤ آج تم اپنے پیارے دوست کو دفنانے آرہے ہو کل تم بھی یہاں ہوگے۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ کالج کے زمانے میں ایک دوست کی فوتگی کی جھوٹی خبر ملی تو بھاگتے بھاگتے اس کے گھر پہنچا جب سامنے اس کو صحیح سلامت دیکھا تو آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل پڑے۔ بہت لعن طعن کی تو دوست کہنے لگا ھادی حیات سنو اگر میں فوت ہوا ہوتا تو شہر شجاع آباد کی
دوکانیں اس طرح کھلی نہ ہوتیں بلکہ پورا بازار بند ہوتا۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ واقعی میرا
دوست فوت ہوگیا اس کی فوتگی پہ بازار میں کوئی دوکان بند ہونا تو دور کی بات اس کے سگے بھائی کی بھی دکان کھلی ہوئی تھی۔ بھائی سے پوچھا تو کہنے لگا کہ جنازہ لیٹ ہے دودھ، دہی خراب نہ ہو جائے، میں جلدی سے ان کو بیچ کر دکان بند کرکے آتا ہوں۔ پتا ہے قبرستان ہم جیسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو یہ سمجھتے
تھے کہ ان کے بغیر دنیا رک جائے گی۔ لیکن افسوس دنیا چلتی رہتی ہے نہ شہر بند ہوتا ہے اور نہ ہی دکان