
راحیل میری دوسری بیوی کے پہلے شوہر سے تھا! جڑواں بیٹوں کی پیدائش کے وقت کچھ ایسی پیچیدگی پیدا ہو گئی کہ میری پہلی بیوی بچ نہ سکی ! بچوں کی دیکھ بھال کہ لیے اتاں فوری طور پر خیر النساء کو بیاہ لائیں! اور یوں راحیل بھی ہماری زندگی میں چلا آیا ! پہلے دن اماں نے اس کا تعارف کرواتے وقت کہا بیٹا ! خیر النساء بہت اچھی عورت ہے! اور دُکھی بھی ہے تیرے گھر اور بچوں کو بہت پیار سے سنبھال لے گی! بس اپنے بچوں کی خاطر تجھے اس کے لڑکے کو بھی گھر میں برداشت کرنا ہوگا! اب وہ اُس بد ذات کو بھلا کہاں چھوڑے؟ اتاں کی اس بات نے میرے دل میں ایک گرہ لگادی! دل کے ایک کونے میں کینہ پلنے لگا! راحیل بہت تمیز دار بچہ تھا! ایک چیز جو
میں نے شدت سے نوٹ کی کہ میرے سر درویے کے باوجود وہ مجھ سے بہت محبت کرتا! اور میرے رویے سے اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا! صبح جب میں ناشتے کے لیئے کھانے کی میز پر آتا راحیل انتہائی تمیز کے ساتھ اسلام علیکم ابا جان کہتا اور بھاگ کر میرے آگے اخبار رکھتا ! میرے دل میں لگی گرہ ڈھیلی ہوتی کہ ساتھ ہی آواز آتی ارے بدذات چل اپنی ماں سے کہہ جلدی ناشتہ لائے میرے بچے کو دیر ہورہی ہے! وعلیکم السلام کے ساتھ راحیل کے سر پر پیار دینے کے لیئے اٹھتا ہاتھ و ہیں میری اپانچ سوچ کے ساتھ لڑتا اور شکست کھا کر ڈھیر ہوجاتا۔۔۔! خیر النساء نے میرے گھر اور بچوں کو اچھی طرح سے سنبھال لیا تھاوہ بہت صابر عورت تھی کبھی
شکوہ زبان پر نہ لاتی امجھے یاد ہے ایک دن راحیل اُس سے پوچھ رہا تھا امی جان بدذات کیا ہوتا ہے؟ میرا پورا جسم کان بن گیا میری سماعتیں شدت سے خیر النساء کے جواب کی خطر تھیں اسکر اکر کہنے لگیں جب کوئی بہت پیارا لگے اور نظر لگنے کے ڈر سے آپ بتانا نہ چاہیں تو اُسے بدذات کہتے ہیں اُس دن میں نے دیکھا راحیل بہانے بہانے سے سارادن اتاں کے اردگرد پھر تارہا ! کبھی جاہ نماز بچھا کر دے رہا ہے اور کبھی زرا سے کھانسنے پر پانی کا گلاس اُن کے آگے رکھ رہا ہے! اتاں کی آواز آئی ارے بدذات کیوں میری جان کھا رہا ہے ڈرامے باز ! جا دفعہ ہو جا کر کچھ پڑھ لے! کیا جاہل رہ کر میرے بیٹے کے مال پر عیش کرتا رہے گا! راحیل نے کھٹ
سے اتاں کے گلے میں با ہیں ڈالیں چٹا چٹ اُن کی گال پر پیار کیا اچھا پیاری دادی
جان کہا اور بھاگ گیا! میں وہیں اتاں کے تخت کے پاس بیٹھا دیکھ رہاتھا اتاں کی آنکھوں میں ہلکی سی ٹور کی چمک نظر آئی اور پھر معدوم ہو گئی ! کیسے بدقسمت تھے ہم ماں بیٹا اور کیسے خوش بخت تھے وہ ماں بیٹا خیر النساء نے بچے کے دل میں نفرت کی گرہ نہیں لگنے دی تھی ! اور میری ماں مجھ اونچے لمبے مرد، پیشہ کے اعتبار سے وکیل کے دل میں کس آسانی کے ساتھ گرہ لگانے میں کامیاب ہوگئی تھی ! مجھے جوتے جمع کرنے کا بہت شوق تھا اچھے جوتے میری کمزوری تھے! میری وارڈ روب میں ایک سے بڑھ کر ایک جوتا موجود تھا ! راحیل بہت شوق سے میرے جوتے پالش کیا کرتا کئی بار میں نے اسے بڑی دلجمعی سے جوتے چپکاتے دیکھا!
اور سچ بات تو یہ ہے کہ میرادل خوش ہوجا تا جوتے دیکھ کر انجھے یاد ہے ایک دفعہ میں
نے خوش ہو کر صرف اتنا کہا اور انیل کمال کر دیا تم نے اور اسے پانچ سو کا نوٹ
انعام دیا بھاگا بھاگا اتناں کے کمرے میں گیادادی دادی دیکھیں ابا نے مجھے انعام دیا ہے گھر کے ملازمین سے لے کر گھر میں آنے والے ایک ایک مہمان کو بتا تا کہ ابا نے مجھے انعام دیا ہے! اناں نے ہنہ بدذات دفعہ ہو جا کہ کر منہ پھیر لیا ! کاش اتاں اُسے خیر النساء کی خاطر ہی ایک بار گلے سے لگا لیتیں ! جس نے اُن کے پوتوں کو اپنے جگر کے ٹکڑے سے بڑھ کر پیار دیا تھا اناں کی لگائی ہوئی نفرت کی دھیمی آنچ پر میری انا کابت پکتا رہا! خیر النساء کی میرے بچوں اور گھر کے ساتھ بے پناہ محبت اور احسان بھی انا کے اس بت کو توڑ نہ پایا راحیل کی تمام خوبیوں کے باوجود
میں نے کبھی اسے سینے سے نہیں لگایا تھا! ہاں مگر میں نے اس پر خرچ کرنے یا اس کی ضروریات پوری کرنے میں کوئی کوتا ہی نہ کی اخیر النساء اتنے ہی میں مطمئن تھی! وقت گزرتا رہا بچے بڑے ہو گئے !عمر اور علی میرے جُڑواں بیٹے! اعلی تعلیم کے لیئے ملک سے باہر چلے گئے ارائیل نے میٹرک کے بعد تعلیم کو خیر آباد کہ دیا میرے بہت چاہنے کے باوجود وہ پڑھ نہیں سکا ! سارے محلے کا لاڈلا تھا صبح کا گھر سے نکلا شام کو گھر آتا! اکثر ہاتھ پر پٹی بندھی ہوتی جانے کہاں سے چوٹ لگوا کر آتا تھا ! خیر النساء نے میرے دریافت کرنے پر کہا فکر نا کریں مجھے بتا کر جاتا ہے میری اس !
پر نظر ہے!
وقت نے اتاں کو ہم سے چھین لیا ! آخری وقت میں راحیل نے اتاں کی بہت خدمت کی ! کئی بار اپنی گود میں اُٹھا کر ہسپتال لے جانے کے لیے گاڑی میں بٹھایا ! اُن کا کمزور وجود یا ہوں میں بھر کر کئی راتیں راحیل نے ہسپتال کے بیڈ پر جاگ کر گزار دیں! جانے کس مٹی سے بنا تھا یہ راحیل حالانکہ اب اس کو بدذات کا مطلب
بھی سمجھ میں آنے لگا تھا! مر تے سمے اتاں کے ہاتھ راحیل کے آگے جُڑے ہوئے
تھے ! جنہیں چوم کر اُس نے اپنے ہاتھوں سے اتاں کی آنکھیں بند کیں اور میرے
ساتھ انہیں بعد میں اُتارا میرے دونوں بیٹے چاہنے کے باوجود وادی کی آخری رسومات میں شریک نہ ہو پائے ! اُس دن اتاں کی لگائی گرہ ڈھیلی ہوگئی بالکل ز میلی ایس ایک بار راحیل کو گلے سے لگانے کی دیر تھی کہ مل جاتی مگر انا کو شکست دینا کہاں میرے بس میں تھا ۔۔۔ اعمر اور علی نے پڑھائی مکمل ہونے کے بعد شادیاں کرلیں اور ادھر کے ہی ہو کر رہ گئے اسال میں ایک بار بس ملنے کے لیئے آجائے؟
گھڑی پرسوئیوں کا رقص جاری تھا اب کے ڈانس سٹیپ میں وقت کا پاؤں میری قسمت پر تھا مجھے اپنی کار کردگی پر ایک بہت بڑا ایوارڈ ملنے والا تھا کہ مجھے فالج ہو گیا اچپکتے بوٹ پہنے والے پاؤں مفلوج ہو گئے کیا عثمان شاہ نگے اور شہد ھے پاؤں کے ساتھ وہیل چیئر پر ایوارڈ وصول کرے گا جس انا کے بت کو میں نا تو پایا اللہ نے اُسے توڑ ڈالا تھا؟ نوکروں کی فوج کے باوجود رائیل میرے سارے کام اپنے ہاتھ سے کرنا انتقریب والے دن اس نے مجھے اپنے ہاتھوں سے بیترین لباس پہنا کرتیار کیا جسے کوئی باپ اپنے بچے کو سکول کے پہلے دن کے لیئے تیار کرتا ہوا اور پھر ایک انتہائی خوبصورت کالے چڑے کے بوٹ میرے پاؤں میں پینا نے لگا جو کہ اقتل میرے پاؤں کے لیئے بہنے تھے اچھے جوتوں کی بہت پہچان تھی جوتے کسی بہت مہنگی کمپنی پر آرڈر دے کر نوائے گئے تھے! ایوارڈ کے لیئے میری وہیل چیئر چلانے کے لیئے اویل انتظام تھا انگر رائیل خود میری وایل ہیٹر چلا کر سٹیج پر لایا! ایوارڈ ملنے کے بعد میرے گال پر بوس یا اور کہنے لگا lam
proud of you baba
میں کہنا چاہتا تھا میں بہت بار راحیل سے کہنا چاہتا تھا I am proud of
… you my son مر بھی نہ کہہ سکا وہ ایک بار پھر جیت گیا ایہا میں بڑی
عالم ہوتی ہیں ان
کی لگائی گر ہیں بہت سخت ہوتی ہیں وقت کے ساتھ ڈھیلی تو پڑ
جاتی ہیں مگر شکل نہیں پاتیں میرے کان میں اناں کی آواز آئی بد ذات! آج شاید
میری انا کا متحان تھا ایوارڈ کی تقریب کے بعد راحیل مجھے جوتوں کی ایک فیکٹری
میں لے گیا اندر داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا ہر کوئی رائیل کو سلام صاحب
سلام صاحب کہ رہا ہے اور پھر راحیل مجھے ایک دفتر میں لے گیا جہاں ایک بہت
خو بصورت بزرگ بیٹھے تھے ارائیل کو دیکھتے ہی اٹھ کر آئے اُس کے سر پر ہاتھ
پھیرا اور کہنے لگے مبارک ہو عثمان شاہ صاحب ! اللہ کو کوئی تو آپ کی بات پسند آئی
ہوگی جو اُس نے آپ کو رائیل جیسا بیاد یا ایہ آپ کے بیٹے کی فیکٹری ہے! آپ کا
بیا دنیا کا سب سے مشہور شو میکر ہے!
جھے یاد ہے ایک دفعہ میری پسند کے بہت مونگے جوتے خراب ہو گئے تھے۔۔!
جوتے اٹلی کے تھے اور واپس کمپنی میں بھیجنے میں بہت وقت لگتا اور انیل نے بڑے
ماہر موچی باباجی کوڈ ھونڈ کر ان سے میرے جوتے مرمت کروائے امیدی
جوتے تھے جن پر خوش ہو کر میں نے اُسے پانچ سو کا نوٹ انعام میں دیا تھا یا باری
کی مہارت دیکھتے ہوئے میرے شوق کی خاطر رائیل نے اُن سے جوتے بنانے کا
فن سیکھا اور اب رائیل کے بنائے جوتے پوری دنیا میں مشہور تھے او رپ سے
اہر اور انیل کو اپنے جوتے بنوانے کے لیئے بلاتے مگر دو مجھے اور اپنی ماں کو چھوڑ کر
کبھی نہیں کیا باباجی نے ساری کہانی سچائی ! اس وقت رائیل کے پانی بندھے ہاتھ
میری آنکھوں کے سامنے آتے رہے، اس کے ہاتھوں میں لکھنے والی سوئیاں
تمھیں کون نکالے گا انہیں کیا میری تو یہ میرے زخم بھر پائے گی اگر کھل گئی تھی انا
کا بٹ ٹوٹ چکا تھا میں نے راحیل کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے ! اس راحیل کے
سامنے جسے اماں بد ذات کہتی تھیں ! راحیل نے میرے آنسو صاف کیئے میرے
قدموں میں بیٹھ گیا اور کہنے لگا میرے سب دوستوں کے پاس ہو تھے انانی مجھے اللہ
سے دعامانگنے کا کہتیں اور میں نے بہت بار اللہ سے دعا مانگی ! آپ میری دعاؤں کا
عمر تھے میرے اللہ کا انعام تھے ہمیں آپ سے محبت کیے نہ کرتا آپ مجھے بہت پیارے ہیں آیا؟ آپ کی نظر کرم پانی سو کا وہ ایک نوٹ وہ میری زندگی کی کتاب کا سب سے بہترین Note بن گیا جس نے میری زندگی بدل ڈالی امیں اپنے ابا کا پسندید و یا بنا
چاہتا تھا! اور ویبن گیا اور میر اسب سے پیارا بیا بن گیا خیر النساء پاس بیٹھی رورہی تھی مگر اس کی پیشانی چمک رہی تھی اور انیل کی ماں تھی اُس نے راحیل کو محبت کرنا سکھایا تھا اکاش میری ماں نے بھی مجھے محبت کرنا سکھایا ہوتا اس رات جبرائیل نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے میرے بوٹ اتار کر مجھے بیڈ پر لایا تو زندگی میں پہلی بار میں نے اُس کا منہ چوم کر کہا I am proud of you my
son…!
ساتھ انہیں بعد میں اُتارا میرے دونوں بیٹے چاہنے کے باوجود وادی کی آخری رسومات میں شریک نہ ہو پائے ! اُس دن اتاں کی لگائی گرہ ڈھیلی ہوگئی بالکل ز میلی ایس ایک بار راحیل کو گلے سے لگانے کی دیر تھی کہ مل جاتی مگر انا کو شکست دینا کہاں میرے بس میں تھا ۔۔۔ اعمر اور علی نے پڑھائی مکمل ہونے کے بعد شادیاں کرلیں اور ادھر کے ہی ہو کر رہ گئے اسال میں ایک بار بس ملنے کے لیئے آجائے؟
گھڑی پرسوئیوں کا رقص جاری تھا اب کے ڈانس سٹیپ میں وقت کا پاؤں میری قسمت پر تھا مجھے اپنی کار کردگی پر ایک بہت بڑا ایوارڈ ملنے والا تھا کہ مجھے فالج ہو گیا اچپکتے بوٹ پہنے والے پاؤں مفلوج ہو گئے کیا عثمان شاہ نگے اور شہد ھے پاؤں کے ساتھ وہیل چیئر پر ایوارڈ وصول کرے گا جس انا کے بت کو میں نا تو پایا اللہ نے اُسے توڑ ڈالا تھا؟ نوکروں کی فوج کے باوجود رائیل میرے سارے کام اپنے ہاتھ سے کرنا انتقریب والے دن اس نے مجھے اپنے ہاتھوں سے بیترین لباس پہنا کرتیار کیا جسے کوئی باپ اپنے بچے کو سکول کے پہلے دن کے لیئے تیار کرتا ہوا اور پھر ایک انتہائی خوبصورت کالے چڑے کے بوٹ میرے پاؤں میں پینا نے لگا جو کہ اقتل میرے پاؤں کے لیئے بہنے تھے اچھے جوتوں کی بہت پہچان تھی جوتے کسی بہت مہنگی کمپنی پر آرڈر دے کر نوائے گئے تھے! ایوارڈ کے لیئے میری وہیل چیئر چلانے کے لیئے اویل انتظام تھا انگر رائیل خود میری وایل ہیٹر چلا کر سٹیج پر لایا! ایوارڈ ملنے کے بعد میرے گال پر بوس یا اور کہنے لگا lam
proud of you baba
میں کہنا چاہتا تھا میں بہت بار راحیل سے کہنا چاہتا تھا I am proud of
… you my son مر بھی نہ کہہ سکا وہ ایک بار پھر جیت گیا ایہا میں بڑی
عالم ہوتی ہیں ان
کی لگائی گر ہیں بہت سخت ہوتی ہیں وقت کے ساتھ ڈھیلی تو پڑ
جاتی ہیں مگر شکل نہیں پاتیں میرے کان میں اناں کی آواز آئی بد ذات! آج شاید
میری انا کا متحان تھا ایوارڈ کی تقریب کے بعد راحیل مجھے جوتوں کی ایک فیکٹری
میں لے گیا اندر داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا ہر کوئی رائیل کو سلام صاحب
سلام صاحب کہ رہا ہے اور پھر راحیل مجھے ایک دفتر میں لے گیا جہاں ایک بہت
خو بصورت بزرگ بیٹھے تھے ارائیل کو دیکھتے ہی اٹھ کر آئے اُس کے سر پر ہاتھ
پھیرا اور کہنے لگے مبارک ہو عثمان شاہ صاحب ! اللہ کو کوئی تو آپ کی بات پسند آئی
ہوگی جو اُس نے آپ کو رائیل جیسا بیاد یا ایہ آپ کے بیٹے کی فیکٹری ہے! آپ کا
بیا دنیا کا سب سے مشہور شو میکر ہے!
جھے یاد ہے ایک دفعہ میری پسند کے بہت مونگے جوتے خراب ہو گئے تھے۔۔!
جوتے اٹلی کے تھے اور واپس کمپنی میں بھیجنے میں بہت وقت لگتا اور انیل نے بڑے
ماہر موچی باباجی کوڈ ھونڈ کر ان سے میرے جوتے مرمت کروائے امیدی
جوتے تھے جن پر خوش ہو کر میں نے اُسے پانچ سو کا نوٹ انعام میں دیا تھا یا باری
کی مہارت دیکھتے ہوئے میرے شوق کی خاطر رائیل نے اُن سے جوتے بنانے کا
فن سیکھا اور اب رائیل کے بنائے جوتے پوری دنیا میں مشہور تھے او رپ سے
اہر اور انیل کو اپنے جوتے بنوانے کے لیئے بلاتے مگر دو مجھے اور اپنی ماں کو چھوڑ کر
کبھی نہیں کیا باباجی نے ساری کہانی سچائی ! اس وقت رائیل کے پانی بندھے ہاتھ
میری آنکھوں کے سامنے آتے رہے، اس کے ہاتھوں میں لکھنے والی سوئیاں
تمھیں کون نکالے گا انہیں کیا میری تو یہ میرے زخم بھر پائے گی اگر کھل گئی تھی انا
کا بٹ ٹوٹ چکا تھا میں نے راحیل کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے ! اس راحیل کے
سامنے جسے اماں بد ذات کہتی تھیں ! راحیل نے میرے آنسو صاف کیئے میرے
قدموں میں بیٹھ گیا اور کہنے لگا میرے سب دوستوں کے پاس ہو تھے انانی مجھے اللہ
سے دعامانگنے کا کہتیں اور میں نے بہت بار اللہ سے دعا مانگی ! آپ میری دعاؤں کا
عمر تھے میرے اللہ کا انعام تھے ہمیں آپ سے محبت کیے نہ کرتا آپ مجھے بہت پیارے ہیں آیا؟ آپ کی نظر کرم پانی سو کا وہ ایک نوٹ وہ میری زندگی کی کتاب کا سب سے بہترین Note بن گیا جس نے میری زندگی بدل ڈالی امیں اپنے ابا کا پسندید و یا بنا
چاہتا تھا! اور ویبن گیا اور میر اسب سے پیارا بیا بن گیا خیر النساء پاس بیٹھی رورہی تھی مگر اس کی پیشانی چمک رہی تھی اور انیل کی ماں تھی اُس نے راحیل کو محبت کرنا سکھایا تھا اکاش میری ماں نے بھی مجھے محبت کرنا سکھایا ہوتا اس رات جبرائیل نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے میرے بوٹ اتار کر مجھے بیڈ پر لایا تو زندگی میں پہلی بار میں نے اُس کا منہ چوم کر کہا I am proud of you my
son…!