
پچھلے سال کی بات ھے۔ ایک دوست گول بازار سرگودها شاپنگ کر رھے تھے۔ اُنکی بیٹی کا فون آیا کہ ابو آپکے داماد نے مجھے فارغ کر دیا۔ علیحدگی دے دی ھے۔ فورا آئیں
اور مجھے لے جائیں۔
بیٹی کی یہ بات سن کر وہ دوست بائیک دوڑاتا گھر کو واپس چلا۔ ان ھی سوچوں گم ھو گا۔ راستے میں چلتی بائیک پر میں
ھارٹ اٹیک ہوا۔ بجلی کے پول سے ٹکرایا اور وھیں سڑک پر جان دے دی
بظاهر یہ بات اتنی سی ھے کہ ھارٹ اٹیک ھوا اور بندہ فوت ھو گیا۔ وقت مقرر تھا۔ لیکن نہیں۔۔۔ میں نہیں مانتا۔۔۔
کوئی بات تو تھی جو ایک اچھے بھلے صحت مند آدمی کی اچانک موت کا باعث بنی۔ اس میں کہیں نا کہیں تو انسانی غلطی نے بھی اپنا حصہ ڈالا ھو گا۔
علیحدگی کے کچھ دن بعد میں بچی سے ملا اور پوچھا کہ بی بی تین بچوں کیساتھہ
خاوند نے جو تمہیں چھوڑ دیا۔۔ کیا بات ھوئی تھی۔ تمہارا فسٹ کزن بھی تو تھا۔
اُس بیٹی نے جو بھی وجہ بتائی وہ مجھے سمجھ نہیں آئی۔ الزامات کی ایک لمبی فہرست تھی لیکن وہ صاحبزادی مجھے کہیں بھی یہ نا بتا سکی کہ معاملات کی بہتری کیلی خود اُس نے کیا کیا۔۔ ؟
ایک بات میں نے بطور خاص نوٹ کی کہ محترمہ کے ھاتھہ میں ڈیڑھ لاکھہ والا آئی
فون تھا۔
مرحوم دوست میرے رشتے دار بھی تھے۔ اُنکا سابقہ داماد اعلی تعلیم یافتہ اور ایک محترم ادارے میں سکول ٹیچر ہے۔ چند دن بعد میں بطور خاص اُسے ملنے گیا۔
پوچھا کہ جوان تم جو اتنی انتہا پر پہنچے۔ اپنے بچے تک چھوڑ دیے۔ کیا تمہیں بچے پیارے نا تھے۔ ہوا کیا تھا۔ کس بات نے تمہیں
اتنا مجبور کیا۔
وہ بولا کہ سر میری دو سالیاں ھیں دونوں انتہائی امیر گھروں میں بیاھی ھوئی۔
کوٹھیوں کاروں اور نوکر چاکروں والی جب بھی میری بیوی اپنی بہنوں کو مل کر آتی۔ میرے گھر جھگڑا شروع هو جاتا مجھے بات بات پر غریبی کے طعنے ملتے۔ میں چالیس هزار ماھانہ کا ملازم ھوں۔ جتنا کر سکتا تھا, انتہائی حد تک کیا لیکن اب بات برداشت
سے باھر تھی۔
اُس نے مزید کها که مجھے اپنی بیوی بہت پیاری تھی۔ میرے پاس تین هزار والا موبائل بیگم کو میں نے آئی فون لیکر دیا۔ پھر ھے۔
کار کا مطالبہ ھوا بنک لون سے کار لیکر دی۔
پرانا فرج بیچ کر قسطوں پر فل سائز نیا فرج لیا۔ پھر اے سی کا کہا گیا۔ اے سی لیکر دیا۔ اس سب کے باوجود طعنے ھی طعنے۔ میں اپنی نظر میں ھی حقیر بن چکا تھا۔
علیحدگی والے ماہ بجلی کا بل تیس ہزار آ گیا۔ چالیس هزار کل تنخواہ میں سے میں کیا کرتا۔ دس هزار تو صرف ماھانہ دودھہ کا بل بنتا تھا اوپر سے بیگم کی فضول کی باتیں۔
میں پہلے ھی بیگم کی پچھلی لامحدود خواهشات تنگ تھا۔ بالکل ناک میں دم آ سے
چکا تھا۔ فوری جھگڑا اس بل پر ھوا اور بات اس انتہا تک پہنچی۔
یہ بات کرتے کرتے وہ رو پڑا۔
ساری بات سن کر میں نے اپنا سر جھکایا اور گھر واپس آ گیا اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو اپنے بیٹوں کو کم از کم خواہشات کیساتھہ زندہ رھنا بتایا۔
اس وقت وہ علیحدگی یافتہ بیٹی اپنے شادی شدہ بھائی کے تین مرلہ مکان کے اوپر والے ایک کمرے میں رہ رھی ھے۔
جب بجلی بند هو تو اس کمرے میں بندہ ایسے ھو جاتا جیسے بھٹی میں دانے بھنتے نا اوپر واش روم ہے اور نا کچن _ بچے نیچے جائیں تو اُن کی ممانی تھپڑ لگا کر اوپر واپس بھگا دیتی ھے۔ ھیں
گوری چٹی اور سرخ و سفید چھبیس سالہ لڑکی صرف ایک سال میں پچاس سال کی اماں نظر آتی ھے۔ سنا ھے کسی پرائیویٹ سکول میں دس هزار کی نوکری بھی شروع کر دی ہے۔
بلکل ہے حقیقت ھے اج طلاق کا رجحان بڑھ گیا ہے اؤر تقریباً وجہ ہے ہی ھے