میں رشتہ اور آنٹی

میں اور میری بیوی ستار کی دوکان پر گئے
سونے کی انگوٹھی خریدنے کیلئے کچھ انگوٹھیاں دیکھنے کے بعد میری بیوی کو ایک انگوٹھی
پسند آ گئی۔ قیمت ادا کر کے جیسے جی میں باہر نکلنے کیلئے مڑا تو ایک بارعب شخص سے
ملاقات ہوئی جو کہ مجھے جانتے تھے لیکن میں انکو بھول چکا تھا بس اتنا یاد تھا کہ ماضی
میں بھی ان سے ملاقات ہوئی تھی۔
یہ صاحب بڑی گرم جوشی سے میرے گلے ملے اور سوالیہ نظروں سے پوچھنے لگے بیٹا
لگتا ھے پہچانے کی کوشش کر رھے ۔ میں نے کہا معزرت کیساتھ آپ کا
چہرہ جانا پہچانا لگ رہاھے لیکن یاد نہیں آرہا کہ آپ سے کب ملاقات ہوئی تھی وہ تھوڑا سا مسکراے اور کہنے لگے میرا نام اقبال سے ویسے لوگ مجھے بڑا بھائی کہتے میں آج سے چند سال قبل آپ اپنی فیملی کیساتھ ہمارے گھر آے تھے گلبرگ میں ہمارا گھر ھے شاید آپ کویاد آگیا ہو۔
انکی بات سن کر میر اتو سرھی چکڑا گیا اور میرا رویہ بالکل مودبانہ ھو گیا اور میں بے اختیار بول پڑ اسب یاد آ گیا بڑے بھائی سب یاد آ گیا میں نے سوال کیا آپ اکیلے آئے ہیں یا آنٹی بھی آئیں ھے بڑے بھائی نے جواب دیا جی آنٹی بھی آئیں میں اور دوسرے بھائی بھی آئیں
ہیں وہ سامنے بیٹھے ہیں آپ ان سے مل سکتے میں ایک سائید پر دیکھا تو آنٹی برقعہ پہنے
بیٹھی تھی اور ساتھ میں ہی دوسرے بھائی بھی کھڑے چہرے پر مسکراہٹ سجائے
میری طرف دیکھ رھے تھے۔ میں نے اپنی بیگم کو کہا کہ انٹی کو سلام کرو اور بعد میں انکا تعارف کرواتا ھوں میری بیگم گئی آنٹی کو سلام کیا آنٹی نے بہت میں اچھے طریقے سے میری بیوی کے سر پر ہاتھ پھیر اور پھر بہت ھی پیارے انداز میں میری بیوی کو دعا ئیں دیں۔ میں نے آنٹی کو بتلایا کہ یہ میری بیوی ہے اور یہ میرا 3 سال کا بیٹا ھے ۔ آنٹی بہت خوش ھو ئیں اور اپنے بیٹے کی طرف آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا جس نے میری بیٹے کی جیب میں 1000 کا نوٹ ڈال دیا۔ میں نے بہت اصرار کیا کہ یہ غلط ھے
لیکن آنٹی نہ مانیں۔
کچھ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں آنٹی سے آنے کا مقصد پوچھا تو آنٹی کہنے لگیں کہ اللہ نے میری بیٹی کو بیٹے کی نعمت سے نوازا ھے اسلئےبیٹ کیلئے اور انکے اہل خانہ کیلئے کچھ تحائف خریدنے آئیں ہیں ۔۔
میں نے پو چھا آنٹی کونسی بیٹی آپکی تو تمام بیٹیاں شادی شدہ تھیں صرف ایک کنواری تھی جسکے رشتہ کیلئے ہم لوگ آئے تھے اور آپ لوگوں نے کہا تھا کہ ابھی 5 یا 10 سال تک شادی کا کوئی پروگرام نہی ھے۔۔ حالانکہ مجھے حیرانگی ہوئی تھی کہ گھر پر رشتے کیلئے بلوا کر پھر کہہ دینا کہ 5 یا 10 سال تک شادی کا کوئی پروگرام نہیں کتنی غلط بات ھے۔
آنٹی کو جیسے ایک جھٹکا لگا لیکن وہ ایک سمجھدار خاتون تھیں اور فوراً سمجھ گئیں کہ بات کچھ اور ہے پوچھنے لگی کہ یہ بات آپکو کس نے کہی تھیں میں نے کہا والد صاحب نے کہا تھا تو وہ کہنے لگی نہیں بات دراصل کچھ اور تھی لیکن آپ کے والد صاحب نے
آپ
کا پردہ رکھا تھا۔۔
میرے اندر ایک تجسس پیدا ھو گیا کہ میرے والد صاحب ہم سے کیسے غلط بیانی کر
سکتے ھیں اور میرے والد صاحب نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا تھا۔۔ آنٹی نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ مجھے میرے بیٹے کیساتھ اکیلا چھوڑ دیں اور میں نے بھی اپنی بیگم کو کہاکہ تم تھوڑا اس وقت مجھے دو . اور بچے کو کچھ کھلاو پلاو۔۔ آنٹی کہنے لگی دیتا جس دن تم اور تمہارے اہل خانہ ہمارے گھر ہماری بیٹی کا رشتہ لینے آے تھے میں نے اس دن تمھارے رشتہ سے انکار کردیا تھا جو کہ شاید تمھارے والد ین نے تمہیں نہیں بتایا۔۔۔ تم ایک پڑھے لکھے اور معاشرے میں ایک کامیاب شخص ثابت ھو سکتے ھو مجھے پہلے
ھی علم تھا ۔۔
اور مجھے مکمل یقین تھا کہ میری بیٹی کو بھی تم خوش رکھو گے۔

لیکن نئے لوگوں سے رشتہ جوڑنے کیلئے صرف لڑکے کو ہی نہی دیکھا جاتا بلکہ اسکے
مکمل خاندان کو دیکھا جاتا ھے۔ کیونکہ ہم نے مستقبل میں آپس میں میل جول رکھنا ھوتا ھے اس لئے لڑکے یا لڑکے کے گھرانے والوں کو دیکھ کر مستقبل کا تعین کیا جاتا ہے ۔ کہ یہ گھرانہ مستقبل میں کتنا کامیاب رشتہ نبھا سکتا ھے کیونکہ زندگی میں اتار چڑھاوا آتے رھتے ھیں اور ان حالات میں ہمیں کسی اپنے کی ضرورت ھوتی ھے اسلئے ہم کسی ایسے سے رشتہ نہی جوڑ تے جو خوشیوں میں ہمارے ساتھ ھو لیکن حالات
کے خراب ھوتے ھی وہ ہم سے دور ھو جائے۔۔
اسلئے میں نے اس دن آپکے والد صاحب اور والدہ صاحبہ کو صاف صاف انکار کر
دیا تھا۔ ۔ جو ہوسکتا ہے کہ انہوں نے آپ کو درست بات نہ بتلائی ہو ۔۔
آنٹی کی باتیں سن کر میں مزید پریشان ھو گیا اور میں نے کہا کہ آنٹی ہم بہن
بھائی آپس میں ایک دوسرے پر جان چھڑکتیں اور خوشی اور غم میں برابر کے شریک
ھوتے ھیں کبھی ایسا نہی ھوا کہ جسم میں سے کسی کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت
ھو۔۔۔ اگر آپ پر محسوس نہ کریں تو میں 100 فیصد درست ھوں کہ آپکو ہمارے
خاندان کو پر لکھنے میں غلطی ھوئی ھے۔۔
آنٹی نے ایک سرد آہ لی اور کہا بیٹے ابھی تم بہت چھوٹے ھو جو چیزیں میں دیکھ سکتی
ھوں تم انکی طرف بھی سوچ بھی نہیں سکتے ۔۔۔
میرے استفسار پر آنٹی نے کہا کہ میرا اندازہ کبھی غلط نہیں ہوتا۔
چلو میں تمکو جتلاتی ھوں۔۔۔
میں نے اپنی بیٹی کیلئے جتنے بھی رشتے دیکھے میں ان سے کچھ شرائظ بھی رکھیں جو بھی
میری بیٹی کو دیکھنے آئے۔
دہ اپنے تمام بیٹوں اور انکی بیگمات کو ساتھ لائیں۔۔
جو سب سے اچھے کپڑے ھوں او زیب تن کر کے آئیں۔
گھر کی عورتیں اپنے مکمل زیورات سے سج کر آئیں۔
اگر گھر میں ہر فرد کی اپنی اپنی گاڑی ھے تو وہ اپنی اپنی گاڑی میں آئیں۔۔۔
یہ شرائط بہت عجیب تھیں۔ لیکن بعض لوگوں نے اس کا یہ مطلب لیا کہ شاید ہم
لڑکے والوں کی مالی حالت دیکھنا چاھتے ھیں۔ لیکن ایسی بات نہی ھے۔۔۔
اب جب آپ کے اہل خانہ ہمارے گھر تشریف لائے تھے تو میں نے سب سے
پہلے تمھارے دونوں بھائیوں کی گاڑیاں دیکھیں جو کہ قدر مہنگی تھی جبکہ تمھارے والد
صاحب کی گاڑی کی مالیت آتی نہیں تھی جتنی تمھارے دونوں بھائیوں کی گاڑیوں کی
قیمت تھی۔۔
اسیطرح پھر میں نے تمھارے والد صاحب کے کپڑوں کا جائزہ لیا تو مجھے محسوس ھوا کہ تمھارے بھائیوں کے جسموں پر کپڑے زیادہ مہنگے ھیں اور یہی حال تمھارے والد صاحب کے جوتوں کا تھا جو کہ بہت ناقص پر پھٹے ہوئے تھے۔۔ جب میں نے تمھاری ماں کے زیورات دیکھے تو انکی مقدار بہت ھی کم تھی جبکہ تمھاری دونوں بھابھیوں کے ہاتھ بازو اور گلے زیورات سے بھرے ہوئے تھے ۔
پھر میں نے جب تمھاری بھا بھیوں سے پوچھا کہ گھر کا کھانا کون پکاتا ھے تو تمھاری
بھا بھوں نے کہا کہ ہم سب علیحدہ علیحدہ پکاتے ھیں اور تمھارے والدین کا کھانا
تمھاری بہن پکاتی ہے۔
اسی طرح میں نے جب پوچھا کہ بچوں کو سکول کون چھوڑتا ھے تو مجھے پتہ چلا کہ
تمھارے دونوں بھائی اپنے بچوں کو خود چھوڑتے ھیں جبکہ تمھاری بہن کو تمھارے
والد صاحب کالج لے کر جاتے ھیں۔
جب میں نے یہ حالات دیکھے اور سنے تو مجھے افسوس جوان بیٹیوں پر جنکو پڑھانے کیلئے باپ نے اپنی ساری زندگی گنوادی اور اس اولاد کو معاشرے کا کامیاب فرد بنایا لیکن جب اولاد کی باری آئی تو اولاد والد کا سہار بننے کی بجائے اپنی ہی اچھی زندگی
گزارنے پر رضامند ھوگئی۔۔
تمھارے باپ نے تمھارے لئے بھوک افلاس بھی دیکھا ھوگا۔
پیدل سفر بھی کیا ھو گا۔
تمھارے منہ میں نوالہ ڈالنے کیلئے بھوک بھی برداشت کی ہوگی۔

تمہیں اچھا پہنانے کیلئے خود دو تین سال ایک بھی جوڑے میں بھی گزارے ھونگیں
لیکن جب اولاد کی باری آئی تو اولاد باپ کو بھول گئی اور اپنی دنیا کی رنگ رلیوں
میں گم ہوگئی۔۔
تمھارے بھائیوں نے خود تونئی گاڑی لے لی لیکن انکو خیال نہ آیا کہ بیمار باپ آج
بھی اسی پرانی گاڑی میں سفر کیوں کرتا ھے کیونکہ اس پر ابھی بھی تمھاری بہن کی اور
تمھاری زمہ داری ہے۔
اسکا بھی دل کرتا ھوگا نئے جوتے اور نئے کپڑے پہنے کولیکن ہوسکتا ھے اسکی جیب
اس چیز کی اجازت نہ دیتی ہو۔ لیکن تمھارے بھائیوں کی جیب تو اجازت دیتی تھی
کہا اپنے باپ کیلئے اچھا لباس اچھا ہونا پہلے خریدتے اور اپنے لئے بعد میں ۔۔کیونکہ یہ
رو یہ تمھارے باپ کا تھا جب بھی اس نے کوئی چیز خریدنا چاھی۔ پہلے اپنی اولاد کا
خیال کیا بعد میں اپنا سوچا ۔۔ اس لئے میں نے یہ ساری باتیں اس دن تمھارے والد سے کر دیں تھیں۔ ھمیں دنیا کی مال و دولت نہی چاہیے تمہیں تو ایسے رشتہ دار چاھئیں جو اپنے سے بڑھ کر اپنے رشتہ داروں کو تر جیح دیں تا کہ کل کو جب ہم نیچے گریں تو ہم کو مزید نیچے دبانے کی بجاے او پر کو اٹھا ئیں تا کہ کل کو جب وہ نیچے گریں تو ہم انکو بھی سہارا دیں سکیں
مال و دولت اعلی عہدہ یا مرتبہ تو ہمیشہ نہی رہتا۔۔ جو ساتھ چلتے میں وہ کچے رشتے چلتے ھیں اور اگر رشتے بنانے میں ہم سے تھوڑی سی بھی غلطی ہو جائے تو ساری زندگی بھی تباہ ہو سکتی ہے اور نسلیں بھی تباہ ھو جائے
کرتی ہیں۔۔۔ مجھے فخر ھے آپ کے والد صاحب پر کے انھوں نے آپ کو حقیقت سے آگاہ نبی کیا اور پھر بھی آپ لوگوں کی غلطیوں پر پر دو ڈالتے رھے لیکن دیکھنا یہ ھے کہ اولاد اپنے والدین کا کتنا خیال رکھتی ہے والدین تو ھمیشہ سے میں اولاد کیلئے قربانیاں
دیتے آئیں میں۔۔
ابھی اولاد کی باری ہے اور مجھے فخر سے اپنی اولاد پر کہ آج کچھ بھی ھو جاے میری اولاد مجھے ہمیشہ ترجیح دیتی ھے میرے لئے پہلے خرید تی ھے بعد میں اپنے ایوی بچوں کیلئے کچھ خریدا جاتا ھے اور مجھے فخر ھے اپنی اولاد کی اولاد پر کہ وہ بھی اپنے والدین کو اپنی زندگیوں سے زیادہ ترجیح دیتی ھے اور ھمارا پورا خاندان ایک جان کی مانند ھے اگر کسی کو کسی بھی چینے کی ضرورت پڑ جائے تو پیٹ د یکھا کر نہی بھاگتے بلکہ
ضرورت سے زیادہ لے کر آتا ھے۔۔۔۔
اس لئے میرے بیٹے رشتے بنانا بہت آسان ھے لیکن کامیاب رشتے چٹا اور انکو
نبھانا بہت مشکل ھے۔ کہیں ایک نا اہل رشتہ آپ
کو اتنابڑا انقصان دے سکتا ھے
کہ ساری عمر کی خوشیاں غموں میں تبدیل ہوسکتی ہیں اور کامیاب رشتہ آپکو ایسا
سہار ہو سکتا ہے کہ تمام زندگی کے غم خوشیوں میں تبدیل ھو سکتے ہیں۔۔۔
اپنی بات کرنے کے بعد انٹی اٹھ کر چلی گئیں۔۔ اور میری آنکھوں کے سامنے
میرے والدین کا چہرہ گھومنے لگا۔ میری گاڑی میرے والد کی گاڑی سے بہت تھی میر الباس میرے والد کے لباس سے بہتر تھا۔ میرے گھر کی زیب وزینت کا سامان میرے والد کے گھر سے بہتر تھا۔ میری ہوئی ہاتھ میں سونے کی چوڑیاں اور انگن تھے جو میں نے خرید کر دیئے تھے لیکن میری ماں کا سار از یور بک چکا تھا میں آج بھی گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر لیکن میرا باپ آج بھی اولاد کی زمہ داریاں نبھا
رہا تھا۔۔ میں نے آج بھی اپنی بیوی کیلئے سونے کی انگھوٹھی خریدی لیکن میرے حسین میں میری ماں کا خیال کیوں بنا یا جس نے میری شادی کیلئے اپناز یورچ دیا۔۔ مجھے افسوس حول ا پنے آپ پر کہ میں نے اپنے والدین سے زیادہ اپنی ذات کو تر نیج دی ھے میرے والدین جنہوں نے مجھے سب کچھ دیا اور میں نے ان سے سب کچھ لے کر انکو خالی کردیا لیکن بھی انہوں نے بیج سے کوئی گلہ یا شکوہ نہیں کیا۔۔۔ میرے والدین کل بھی عظیم تھے اور آج بھی تعلیم میں اور میں کل بھی نا کام تھا اور آج بھی نا کام ھوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے