بہن کی شادی

میں کبھی اس کے گھر نہیں گیا۔ عید، شب رات کبھی بھی نہیں ابو یا امی ہی جاتے ہیں۔ میری بیوی ایک دن مجھے کہنے لگی آپ کی بہن جب بھی آتی ہے اس کے بچے گھر کا حال بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں خرچ ڈبل ہو جاتا ہے اور تمہاری ماں ہم سے چھپ چھپا کر کبھی اس کو صابن کی پیٹی دیتی ہے، ۡ

کبھی کپڑے، کبھی صرف کے ڈبے اور کبھی کبھی تو چاول کا تھیلا بھر دیتی ہے۔ اپنی ماں کو بولو یہ ہمارا گھر ہے کوئی خیرات سینٹر نہیں۔ مجھے بہت غصہ آیا میں مشکل سے خرچ پورا کر رہا ہوں اور ماں سب کچھ بہن کو دے دیتی ہے۔ بہن ایک دن گھر آئی ہوئی تھی اس کے بیٹے نے ٹی وی کا ریموٹ توڑ دیا میں ماں سے غصے میں کہہ رہا تھا ماں بہن کو بولو یہاں عید پہ آیا کرے بس اور یہ جو آپ صابن صرف اور چاول کا تھیلا بھر کر دیتی ہیں نا اس کو بند کریں۔

ماں چپ رہی لیکن بہن نے ساری باتیں سن لی تھیں۔ میری بہن کچھ نہ بولی۔ اس نے اپنے بچوں کو تیار کیا اور کہنے لگی بھائی مجھے بس سٹاپ تک چھوڑ دو۔ میں نے جھوٹے منہ کہا، رہ لیتی کچھ دن ليكن وہ مسکرائی نہیں بھائی بچوں کی چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں۔

پھر جب ہم دونوں بھائیوں میں زمین کا بٹوارا ہو رہا تھا تو میں نے صاف انکار کیا۔۔۔۔ میں اپنی زمیں سے بہن کو حصہ نہیں دوں گا۔۔۔۔ بہن سامنے بیٹھی تھی۔۔۔۔ وہ خاموش تھی کچھ نہ بولی ماں نے کہا بیٹی کا بھی حق بنتا ہے لیکن میں نے گالی دے کر کہا کچھ بھی ہو جائے میں بہن کو حصہ نہیں دوں گا۔۔۔۔ میری بیوی بھی بہن کو برا بھلا کہنے لگی وہ بیچاری خاموش تھی۔۔۔۔ میرا بڑا بھائی ہم سے علیحدہ ہو گیا، کچھ وقت کے بعد میرے بڑے بیٹے کو ٹی بی ہو

میرے پاس اس کا علاج کروانے کے پیسے نہیں تھے۔۔۔۔ بہت پریشان تھا میں ۔۔۔۔۔ قرض بھی لے لیا تھا لاکھ روپیہ۔۔۔۔۔ بھوک سر پہ تھی۔ میں بہت پریشان تھا کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا شاید رو رہا تھا حالات یہ۔۔۔۔ اس وقت وہی بہن گھر آگئی۔۔۔۔۔ میں نے غصے سے بولا اب یہ آ گئی ہے منحوس میں نے بیوی کو کہا ۔۔۔ کچھ تیار کرو بہن کے لیے۔ – بیوی میرے پاس آئی۔۔۔۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں گوشت یا بریانی پکانی کی اس کے لیئے۔۔۔۔۔ پھر ایک گھنٹے بعد وہ میرے پاس آئی بھائی پریشان ہو۔۔۔۔۔۔ بہن نے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا بڑی بہن ہوں تمہاری۔۔۔۔۔۔ گود میں کھیلتے رہے ہو۔۔ اب دیکھو مجھ سے بھی بڑے لگتے ہو۔۔ پھر میرے قریب ہوئی۔۔

اپنے پرس سے سونے کے کنگن نکالے میرے
ہاتھ میں رکھے۔۔۔
اہستہ سے بولی۔۔۔ پاگل توں اویں پریشان ہوتا ہے بچے سکول تھے میں سوچا دوڑتے دوڑتے
بھائی سے مل آؤں۔۔۔ یہ کنگن بیچ کر اپنا خرچہ کر بیٹے کا علاج کروا۔۔۔
شکل تو دیکھ ذرا کیا حالت بنا رکھی تم نے میں خاموش تھا۔۔ بہن کی طرف دیکھے جا
رہا تھا۔۔۔
وہ آہستہ سے بولی کسی کو نہ بتانا کنگن کے بارے میں تم کو میری قسم ہے۔۔۔۔ میرے ماتھے پہ بوسہ کیا اور ایک ہزار روپیہ مجھے دیا جو سو پچاس کے نوٹ تھے شاید اس کی جمع پونجی تھی۔۔۔ میری جیب میں ڈال کر بولی بچوں کو گوشت لا دینا ۔۔۔ پریشان نہ ہوا کر ۔پریشان نہ ہوا کر۔۔۔ جلدی سے اپنا ہاتھ میرے سر پہ رکھا۔۔ دیکھ بال سفید ہو گئے۔۔۔


وہ جلدی سے جانے لگی۔۔۔ اس کے پیروں کی طرف میں نے دیکھا، ٹوٹی ہوئی جوتی پہنی تھی پرانا سا دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا، جب بھی آتی تھی وہی دوپٹہ اوڑھ کر آتی بہن کی اس محبت میں مر گیا تھا۔۔۔ ہم بھائی کتنے مطلب پرست ہوتے ہیں۔۔۔ بہنوں کو پل بھر میں بیگانہ کر دیتے ہیں اور بہنیں بھائیوں کا ذرا سا دکھ برداشت نہیں کر سکتیں۔۔۔ وہ ہاتھ میں کنگن پکڑے زور زور سے رو رہا تھا۔۔۔ اس کے ساتھ میری آنکھیں بھی نم تھیں۔۔ اپنے گھر میں خدا جانے کتنے دکھ سہہ رہی ہوتی ہیں یہ بہنیں۔۔۔ پوچھ لیا کرو۔۔۔ شاید کے ان کے چہرے پہ کچھ لمحوں کے لیئے ایک سکون آ جائے۔۔۔ بہنیں ماں کا روپ ہوتی ہیں۔۔۔ کچھ لمحے بہنوں کے پاس بیٹھ کر حال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے