شاگرد کا اُستاد سے انتقام

اُستاد نے ایک دن مجھے بہت مارا ۔میں نے دل میں انہیں جتنی گالیاں دے سکتا تھا
دیں۔
سوچا۔ جب بھی ذرا بڑا ہوا تو انہیں مار ڈالوں گا اور دل میں آیا کہ یہ کام لازمی کرنا ہے۔ لیکن وہ مجھے مار مار کر پڑھنا سکھا گئے

ایک دن ملے سائیکل پر تھے، کافی بزرگ ہو چکے تھے۔۔۔ ان کے پاؤں شوگر کی وجہ سے سوجے رہتے کبھی کبھی بنا جوتوں کے سائیکل چلاتے ۔۔۔۔۔) مجھے دیکھتے ہی بولے رضوان میں گاڑی سے بھاگ کر اترا …… بڑے خوش ہوے

۔ مجھے دیکھ کر۔۔۔ ایک دم ہاتھ جوڑ کر بولے (کمزور آواز میں ) ۔ تجھے بہت مارتا تھا ۔مجھے معاف کر دیتا ….. پر اس لیے مارتا تھا کہ تم زندگی میں کامیاب بن جاؤ اور آج تمہیں کسی مقام پر دیکھ کر رو پڑا ہوں کہ میراشا گرد آج بڑی گاڑی میں بیٹھا ہے۔ کامیاب ہو گیا ہے بیٹا تم میری خوشی کا انداز نہیں کر سکتے۔ اور رو پڑے۔۔۔ میرے سینے پر گھونسہ لگا۔۔۔ یکدم تڑپ کر ان کے سینے سے لگ گیا۔۔۔ ہم دونوں استاد شاگرد گلے لگ کر روتے رہے۔سارا روڈ یہ منظر دیکھ رہا تھا۔. عجب کی مہک تھی جو ان کے سینے سے آرہی تھی، مجھے ان کی چھاتی میں سکون محسوس ہورہا تھا۔ابدی سکون۔جس جس راہ چلتے بندے کو پتا چلا وہ استاد شاگرد کا پیار دیکھ کر بھی سن کر آبدیدہ ہوگیا ۔بات یہ ہے کہ آپ اچھے نمبر ز نہ بھی لیں۔۔ اچھے گریڈ ز نہ بھی لیں صرف اپنے ٹیچر کا ادب کریں …. تو اجر ٹیچر نہیں خدا دیتا ہے۔۔۔ مجھے یہ ملاقات کبھی نہیں بھول سکتی۔۔۔ مجھے تراشنے والے وہی تو تھے۔۔۔ میں اک گمنام بے شکل پتھر تھا …… اس لیئے جتنا ہو سکے صرف استاد کے احترام کو ترجیح دیں اور یہی فقط کامیابی کی سیڑھی ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے