ایک دفعہ ایک عورت ایک پیر صاحب کے پاس پہلی بار گئی کچھ دعا کروانے کے لیے ۔ تو بیٹھتے وقت اسکی ہوا خارج ہوگئی اور آواز پیدا ہوئی اسے بہت شرمندگی ہوئی اتنی کے بے انتہا۔ پیر صاحب سے جب اس نے بات کی تو پیر صاحب نے بولا بیٹا اونچا بولو میں اونچا سنتا ہوں وہ جب بہت اونچی بولی تب پیر صاحب کو اسکی بات سمجھ میں آ کی اس نے سوچا پیر صاحب جان بوجھ کے شاید ایسا کر رہے ہیں میری شرمندگی دور کرنے کے لیے کہ انھوں نے ہوا خارج کی
آواز نہیں سنی کیونکہ وہ اونچا سنتے ہیں لیکن اسے یقین تب ہوا جب پیر صاحب کے پاس اور لوگ بھی آئے اور انھوں نے اونچا بولنے کو بولا اور پھر پوری زندگی اونچا سنتے رہے حالانکہ بزرگ صحیح سن سکتے تھے لیکن انھوں نے اس مسافر خاتون کی عزت کا بھرم رکھنے کے لیے کہ اسے پوری زندگی اس بات
پر شرمندگی نہ اٹھانا پڑے اونچا سنتے رہے آج ہم کیا کر رہے ہیں کوئی عیب کسی کا ہاتھ آگیا تو ہم اسے اچھالتے ہیں تمسخر اڑاتے ہیں ہمیں دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنا چاہیے کسی کی بات پتہ لگ گئی کوئی نہ چاہتے ہوئے غلطی کر بیٹھا ہے تو اس کا تمسخر نہیں اڑانا چاہیے ابو ہریرہ اکبر