لاہور سے ملتان جاتے ہوئے مجھ سے اگلی دونوں سیٹوں پر ایک لڑکی اور ایک ادھیڑ عمر شخص آکر بیٹھ گئے۔ لڑکی نے نقاب کر رکھا تھا، عمر یہی کوئی 17، 18 سال ہوگی میرے ساتھ کھڑ کی والی سیٹ پر ایک لڑکا بیڈ فونز اپنے کانوں میں لگائے فون میں مصروف تھا۔ بس چلنے کے تھوڑی دیر بعد تمام لائیٹس بجھادی گئیں تو مجھے بھی اپنی کتاب بند کر کے بیگ میں رکھنا پڑی۔ چند منٹ بعد بی زیادہ تر لوگ سونے لگے مجھے دوران سفر سونے کی عادت نہیں ہے اس لیے اپنی سیٹ سے سر
لگائے سوچوں میں گم ہو گیا۔ کچھ دیر بعد انگلی سیٹ پر بیٹھی لڑکی نے بلکا سا پیچھے مڑکر دیکھا میرے دل میں ایک عجیب سی بلچل ہوئی اسکے ساتھ بیٹھا ہوا شخص شاید اسکا باپ تھا۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنے سے اگلی سیٹ پر ماتھا مکائے سوربا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس لڑکی نے پھر پیچھے دیکھا اور پہلو بدل کر بیٹھ گئی۔ اب وہ کچھ بے چین سی لگ رہی تھی بار بار پہلو بدل رہی تھی۔ مجھے اسکی یہ بے چینی نا صرف یہ کہ سمجھ نہی آرہی تھی بلکہ میں خود بھی عجیب سی الجھن اور بے چینی محسوس کرنے لگا۔ اس نے تیسری بار پیچھے پلٹ کر
دیکھا تو مجھے اسکی آنکھوں میں التجا اور بے چارگی نظر آئی شاید وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر کہ نہی پارہی تھی ادھر میں بھی اس سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر نہی پوچھ سکتا تھا۔ ایسے میں عجیب بات ہوئی مجھے اسکی سکیوں کی آواز سنائی دی۔ میرا دل تڑپ اٹھا اس سے پہلے کہ میں کچھ دریافت کرتا اس نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ جسکی آواز سے اسکے ساتھ بیٹھا ہوا شخص بھی جاگ گیا اور اس سے رونے کی وجہ دریافت کرنے لگا۔ بس کا کنڈیکٹر اور کچھ لوگ بھی متوجہ ہو گئے۔ اسکا باپ تھوڑی دیر بعد اٹھا اور میرے ساتھ بیٹھے ہوئے لڑکے کو تھپڑ رسید کر دیا۔
وہ لڑکا تھپڑ کھا کر اٹھا اور اس شخص کو گریبان سے پکڑ کر دو چار گھونے اور تھپڑ رسید کر دیے۔ میں نے جلدی سے اٹھ کر دونوں کو الگ کیا اتنے میں کنڈیکٹر اور چند دوسری سواریاں بھی آگئیں۔ وجہ یہ معلوم ہوئی کہ بیڈ کا کافی دیر سے سیٹ کی ٹیک اور گدی کی درمیانی پیس سے لڑکی کو چھیڑ رہا ہے۔ جس سے وہ لڑکا سراسر انکاری تھا۔ کہ میرا پاوں وہاں تھاوہ لگ گیا ہوگا۔ کنڈیکٹر نے بیچ کا راستہ نکالا اور لڑکے
کی سیٹ بدل کر کسی اور ادھیڑ عمر شخص کو وہاں بٹھا دیا اور بس چل پڑی لائٹس بند ہو گئیں اب میرے ساتھ بیٹھا شخص سیٹ کی درمیانی سپیس ” کو بار بار دیکھے جارہا تھا کچھ دیر بعد۔۔۔۔۔۔ لائیٹس بند ہو گئیں۔ میرے ساتھ بیٹھے شخص نے انگلی سیٹ کو پکڑ کے اپنا بیلنس کیا اور چوڑا ہوکر بیٹھ گیا اسکی اس حرکت سے لڑکی کی سیٹ قدرے پیچھے ہوگئی۔ تو اس نے سٹپٹا کر پیچھے دیکھا۔ پھر ایک نظر اپنے باپ پر ڈالی جو اپنے گال پہ ہاتھ رکھے آنکھیں بند کیے کسی سوچ میں گم تھا اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔