
یہ تجربہ میں کر چکا ہوں اور اس کا بھیانک انجام بھی جنگت چکا ہوں، ہوا کچھ ایسے کہ ایک گروپ سے میں نے پوسٹ پڑھی کہ رات کو کچا گوشت سرہانے رکھ کر سونے سے جنات حاضر ہو جاتے ہیں، میں نے تجربہ کرنے کا سوچا فریج سے کچا گوشت تو ناملا، البتہ قیمے والا شاپرمل گیا، میں نے اس میں سے کچھ کچا قیمہ نکالا اور پلیٹ میں ڈال کر اپنے سرہانے رکھ کر سو گیا، واضح رہے کہ اس وقت گرمیوں کا موسم تھا اور میں چھت پر چار پائی ڈال کر سویا کرتا تھا صبح اٹھا تو پلیٹ تو پڑی تھی لیکن قیمہ غائب تھا۔ اگلی رات میں نے دوبار شاپر سے قیمہ نکالا اور پلیٹ میں ڈال کر سرہانے رکھ کر سو گیا ، اس رات مجھے عجیب عجیب سے خواب آتے رہے لیکن اور کچھ نا ہوا صبح اٹھا تو قیہ پھر غائب تھا اور پلیٹ وہیں رکھی ہوئی تھی، میں سمجھ گیا تھا کہ قیمہ کون کھا جاتا ہے ظاہری بات ہے جنات کے علاوہ کون ایسی حرکت کر سکتا ہے ؟ لیکن میں بالکل ناڈرا، میں الحمد للہ بہت بڑے دل کا بہادر نوجوان ہوں ، اگلی رات میں نے مزید قیر فریج سے نکالا اور سونے سے پہلے سرہانے رکھ لیا، تین دنوں میں تقریبا آدھا کلو قیمہ میں جنات کو پیش کر چکا تھا لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ اگلی صبح میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ رات قیمہ سرہانے رکھ کر تو سو گیا لیکن جونہی رات کے تین بجے کل وقت ہوا ایک دم سے میری آنکھ کھل گئی میں نے اپنے سرہانے رکھی پلیٹ کی طرف نظر دوڑائی تو وہاں قیمہ ابھی تک موجود تھا میں نے سوچا کہ آج رات اپنی آنکھوں سے جنات کو دیکھوں گا کہ وہ کیسے حاضر ہوتے ہیں اور اور کیسے کچا گوشت اٹھا کر کھاتے ہیں، میں بظاہر آنکھیں بند کر کے سویا ہوا تھا لیکن میں پوری نظروں سے قیمے والے پلیٹ کود یکھ رہا تھا ، کچھ وقت گزرا تو اس پاس کی مساجد سے فجر کی اذانیں گونجتے لگیں وہ عجیب سا سماں تھا میرے اندر ایسی کیفیت طاری تھی کہ میں بتانہیں سکتا، اذان ہونے کے چند ھوں بعد مجھے پہلی آہٹ محسوس ہوئی، میں ایک دم سے چو کنا ہو گیا ، ایسے لگ رہا تھا کہ کوئی دبے قدموں میری چار پائی کی طرف آرہا ہے میں دم سادھے لیٹا رہا، آواز لمحہ بہ لمحہ میرے قریب آتی گئی اور ساتھ ہی تیز خوشبو میرے نتھنوں میں گھس گئی۔ ایسی خوشبو میرے ابا جان لگایا کرتے تھے شاید جنات میرے ابا کے روپ میں میرے پاس آئے تھے کیونکہ میں نے سن رکھا تھا کہ جنات انسان کے عزیزوں کے روپ میں اسے نظر آ کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور وہ جو کوئی بھی تھا چند لمحے میرے سرہانے کھڑا رہا اور پھر قدموں کی آہٹ دوبارہ سنائی دی لیکن اس بار قدموں کی آواز سے لگتا تھا کہ دور جارہا ہے، میں سمجھ گیا کہ وہ جو کوئی بھی تھا اسے معلوم ہو گیا تھا کہ میں جاگ رہا ہوں، وہ جن تھا تو ظاہری بات ہے میں اسے دھو کہ نہیں دے سکتا تھا ، خیر اس کے بعد میں کب سویا کچھ معلوم نہیں، صبح میری آنکھ شور کی آوازی کھلی، ایسے لگ رہا تھا کہ نیچے صحن میں لڑائی ہورہی ہے۔ میں نے دیکھا تو آج قیمے کے ساتھ پلیٹ بھی غائب تھی، میں بہت حیران ہوا، تھیں کہ چلو معاف کردو بچہ ہے غلطی ہوگئی ہوگی اسے معلوم نا ہوگا یہ بکرے کا قیمہ کے وقت بہت پر نا جاتا تو مجھے بھی معلوم نہ ہوتا کہ ہر خود ارسر ہانے بکرے کا قیمہ
آنکھیں ملتا ہوا سیڑھیاں اتر کر نیچے صحن میں جانے لگا تو ابا جان کی تفصیلی آواز میرے کانوں میں گوشی وہ کہ رہے تھے کہ اس حرام خور کو اٹھنے دو ذرا، آج اس کا دماغ ٹھکانے لگاؤں گا، اس کو صدقہ اتارنے کے لیے میرا بکرے کا قیمہ ہی ملا تھا کیا؟ میرے کان ایک دم کھڑے ہو گئے، اماں کی ڈری سہمی آواز سنائی دی جو کہ رہی
تھیں کہ چلو معاف کردو، بچہ ہے غلطی ہوگئی ، اسے معلوم نا ہوگا یہ بکرے کا قیمہ ہے ورنہ یوں سرہانے رکھ کے نا سوتا ۔لیکن ابا اب گالیاں دینے پہ اتر آئے تھے۔ چھوٹی بہن کی منمناتی آواز آئی کہ میں بھی حیران تھی کہ دو تین دن سے صبح صبح چھت پر کووں کا شور کیوں ہوتا ہے، اب پتا چلا کہ و بھائی جان کے قیمے کی وجہ سے آتے تھے، ابا کہنے لگے کہ حرام خور کی ٹانگیں توڑ دوں گا اس کو زرا اٹھنے دو، اگر میں صبح نماز
کے وقت چھت پر نا جاتا تو ، مجھے کبھی معلوم نا ہوتا کہ برخودار سرہانے بکرے کا قیمہ رکھ کر سویا ہوا ہے۔ مجھے معلوم ہوچکا تھا کہ وہ قیمہ جنات نہیں بلکہ میرے اٹھنے سے پہلے کوے کھا جاتے تھے اور میں جنات کے چکر میں بکرے کا وہ قیمہ ضائع کر رہا تھا جو ابا جان اپنی ٹانگ کی ہڈی جوڑنے کے لیے منگوا کر کھاتے تھے، چارونا چار مجھے نیچے اترنا ہی تھاسو میں اتر آیا۔ اور اب اپنے دوست کے گھر بیٹھا یہ واقعہ لکھ رہا ہوں کیونکہ ابا جان نے جوتے مار کر مجھے گھر سے نکال دیا ہے
میری آپ سب سے گزارش ہے کہ اس پر تبصرہ مت کیجئے گا یہ
میں نے جسٹ فارفن لکھا ہے